Saturday 16 July 2022

آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں

 آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں

صدیاں گزر گئی ہیں اسی انتظار میں

چھڑتے ہی ساز بزم میں کوئی نہ تھا کہیں

وہ کون تھا جو بول رہا تھا ستار میں

یہ اور بات ہے کوئی مہکے کوئی چبھے

گلشن تو جتنا گل میں ہے اتنا ہے خار میں

اپنی طرح سے دنیا بدلنے کے واسطے

میرا ہی ایک گھر ہے مرے اختیار میں

تشنہ لبی نے ریت کو دریا بنا دیا

پانی کہاں تھا ورنہ کسی ریگزار میں

مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں

وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں


ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment