Saturday, 16 July 2022

کیا وقت پڑا ہے ترے آشفتہ سروں پر

 کیا وقت پڑا ہے ترے آشفتہ سروں پر

اب دشت میں ملتے نہیں ملتے ہیں گھروں پر

پہچان لو اس خاک رہ حرص و ہوا کو

قدموں سے یہ اٹھتی ہے تو گرتی ہے سروں پر

خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے وہ موسم

جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر

سوغات سمجھتے تھے جسے دشت وفا کی

وہ خاک بھی سجتی نہیں اب اپنے سروں پر

ابھرا نہ ترا حسن خد و خال ابھی تک

تصویر تری قرض ہے تصویر گروں پر

کانٹے بھی چنے راہ کے پتھر بھی ہٹائے

منزل نہ ہوئی سہل مگر ہم سفروں پر

پھر پکے مکانوں کے مکیں خندہ بہ لب ہیں

یلغار ہے دریاؤں کی پھر کچے گھروں پر


اطہر نفیس

No comments:

Post a Comment