کیا وقت پڑا ہے ترے آشفتہ سروں پر
اب دشت میں ملتے نہیں ملتے ہیں گھروں پر
پہچان لو اس خاک رہ حرص و ہوا کو
قدموں سے یہ اٹھتی ہے تو گرتی ہے سروں پر
خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے وہ موسم
جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر
سوغات سمجھتے تھے جسے دشت وفا کی
وہ خاک بھی سجتی نہیں اب اپنے سروں پر
ابھرا نہ ترا حسن خد و خال ابھی تک
تصویر تری قرض ہے تصویر گروں پر
کانٹے بھی چنے راہ کے پتھر بھی ہٹائے
منزل نہ ہوئی سہل مگر ہم سفروں پر
پھر پکے مکانوں کے مکیں خندہ بہ لب ہیں
یلغار ہے دریاؤں کی پھر کچے گھروں پر
اطہر نفیس
No comments:
Post a Comment