جھونکا سکونِ جاں ہوا بادِ صبا کا تھا
اور چلنا اس کا تیری ہی آوازِ پا کا تھا
شبنم نے موتی راہ میں تیری لٹا دئیے
ہر غنچہ محوِ حیرتِ حسنِ ادا کا تھا
بادِ نسیم! آ کے زرا تُو بھی دیکھ یاں
ہر پتا ایسے بن گیا جیسے حنا کا تھا
پردہ اٹھایا کلیوں نے پھر سے گرا دیا
تو ادھ کھلا گلاب بھی عنواں فدا کا تھا
لالہ کے گل نے اس کو محبت سے چھو لیا
جیسے کہ لالہ رخ سے تو وعدہ وفا کا تھا
کومل سخن اے دُرِ ثمن پردہ بھی کیا کر
سب کی نظر میں زہر بھی زہرِ بلا کا تھا
رمزی کرے جو پیار تو ظاہر سے کب کیا
باطن کا تیرے چشمہ تو شرم و حیا کا تھا
معین لہوری رمزی
No comments:
Post a Comment