Monday 18 July 2022

اس نے نازک کلائی پہ باندھی گھڑی

 خواب


اس نے نازک کلائی پہ باندھی گھڑی

اور گھڑی کی رواں سوئیوں کی طرف

جب نگاہوں کو پھیرا تو ایسا لگا

جیسے یکدم فضاؤں کو چُپ لگ گئی

وقت ساکن ہُوا

قافلے رُک گئے

پھول کُمہلا گئے، ہم بھی گھبرا گئے

اس نے ہنس کر گھڑی سے نگاہیں ہٹائیں

فضا کِھل گئی

وقت پھر چل پڑا

قافلوں کی مُہاروں کی گرہیں کُھلیں

پیڑ اپنے پرندوں میں پھر کھو گئے

ہم بھی خوش ہو گئے

اس نے پیروں کے تلووں پہ خوشبو مَلی

خوشبو پہلے سے بڑھ کر معطر ہوئی

اس نے ہاتھوں پہ مہندی کے پتے رکھے

مہندی جلنے لگی، خوشبو چلنے لگی

اس نے کاجل کو آنکھیں اٹھا کر تکا

کجلا کالا ہُوا اور کالا ہُوا

اس نے کانوں کی بالی پہ انگلی رکھی

بال پیچھے ہوئے، بالی لہرا گئی، کتنے بل کھا گئی

اس نے پوشاک کو اپنا محرم کیا

رنگ پاگل ہوئے

دھاگے پوشاک کے جھٹ سے کھنچنے لگے

کتنے ارماں جَگے

ہم نے سوچا اسے

چائے خانے کی ٹوٹی ہوئی میز پر

رکھی بے کار چائے بھی اچھی لگی

ہم نے دیکھا اسے، پھر سے دیکھا اسے

دیکھتے رہ گئے

مصرعے ہونے لگے

شعر ڈھلتے ہوئے جوش میں آ گئے

اس نے ہنس کر کہا

ہوش میں آئیے، ہوش میں آ گئے


حسنین محسن

No comments:

Post a Comment