آ کسی روز
آ کسی روز کتابوں میں درج
فرضی کرداروں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے
ہر کردار کو باری باری اس طور نبھائیں
کہ پھر
زندگی کی آنکھ سے رشک کی
قوسِ قزح برسات کی صورت برس کر
محبت کے نغمگی شگوفوں تلے بہاریں بوئیں
اور
تتلی کے پروں پہ چمکتے سب رنگ ہم سے
ہماری خوشنمائی کے رنگ مستعار لینے کو ہمارے گرد بھاگیں
آ کسی روز سنگ مرمر کے کسی بینچ پر بیٹھ کر
ہاتھوں میں ہاتھ لیے
ہم اپنی بولیوں کے وہ مدھر سُر گھولیں کہ جسے سُن کر
شام کی سُرخی کو نظروں میں لیے
گھر کو پلٹتی فاختہ رک کر ہمارے قدموں میں بسیرا کر لے
آ کسی روز پُھول چُنتے ہوئے
میری کسی بات پر ہم اتنا ہنس لیں کہ
پھر موت جِینے کی تمنا میں دُعائیں مانگیں
آ کسی روز زندگی کو باتوں میں لگا کر
دُنیا سے سب دُکھ چُن لیں
آ کسی روز چاند پر چرخہ کاٹتی بُڑھیا سے ملنے چلیں
اور وہیں کسی کہکشاں پر بسیرا کر کے
تاروں کا بستر بنائیں، چاند کو تکیہ کر لیں
آ کسی روز بادل کو سواری کر کے فلک پر جی بھر کر گھومیں
آ کسی روز مُٹھی میں ہوائیں بھر کہ سمندر کو ساکن کر دیں
آ کسی روز ہم تم سے ملیں، تُم کو سُن لیں
اور محبت کی کسی دُھن پہ ذرا دیر تھرک لیں
آ کسی روز میرے دُکھ پہ اکٹھا رو کر
آنکھ کے آنسو پوروں پہ لیے پھونک سے یوں اڑائیں کہ
پھر دن بارش سا برس کہ رات کو نیلا کر دے
آ کسی روز
فرح طاہر
No comments:
Post a Comment