ناقابل اشاعت
میری یہ نظم شائع نہیں ہو سکتی
یہ اشاعت کے قابل نہیں
اس میں شامل ہے گہرا دکھ
ہم سب کا مشترکہ دکھ
جسے محسوس کیا جا سکتا ہے
بیان نہیں
احتجاج اور مذمت اس کے لفظوں میں نعرہ زن
آنسو اور آہیں اس کا دریا
سطح پہ بہہ جاتی ہے سسکی لیکن
میں یہ نظم دیوار پر کیسے لکھوں
کہ ہر دیوار ہوئی ہے بہری
اب یہ پیسوں کا، چند ٹکوں کا
کھوکھلا گونگا اظہار ہو گئیں ہیں محض
ان پر لکھا کوئی نہیں پڑھتا
میں یہ نظم درد کے سمندر میں
پھینک دوں گا
یا ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا
یا جلا دوں گا
میں اسے شائع نہیں ہونے دوں گا ہرگز
شائع ہوئی تو شریک ہو جائیں گے
اس میں سب
محبت کرنے جاننے اور سمجھنے والے
سب کے سب
پھر بھی میں لکھوں گا ضرور
کہ نظم ہی ہے میرا احتجاج
مذمت، نعرہ اور محبت
میں خاموشی اور کھلے اندھے پن کے ماحول میں
ایک نظم لکھوں گا ضرور
محسن شکیل
No comments:
Post a Comment