Monday, 12 December 2022

ہمیں کوئی مطلب نہیں لا مکاں سے

 ہمیں کوئی مطلب نہیں لا مکاں سے

غرض ہے ہمیں صرف اپنے مکاں سے

غموں کا یہ عالم ہے جانے کہاں سے

چلے آ رہے ہیں یہاں سے وہاں سے

نکالے گئے ہیں جو ہم آشیاں سے

شکایت نہیں ہے ہمیں باغباں سے

کہیں برق پر بجلیاں نہ گری ہوں

یہ شعلہ سا اٹھتا ہے کیوں آسماں سے

جلا ہی نہیں تو دھواں کیا اٹھے گا

مِرے نرم و نازک دل ناتواں سے

برستی نہیں موسلا دھار خوشیاں

اترتی ہیں یہ بوند بوند آسماں سے

نظر میری اچھی ہے پھر یہ نظارے

نظر آ رہے ہیں مجھے کیوں دھواں سے

لٹکتی ہے تلوار سر پر ہمیشہ

بچائے خدا ایسے امن و اماں سے

کسی کی نظر خواہ مخواہ لگ نہ جائے

بڑھاپے میں لگتے ہو تم نوجواں سے


غوث خواہ مخواہ 

خواہ مخواہ حیدرآبادی

No comments:

Post a Comment