Monday, 12 December 2022

ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو

 ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو

ڈوب جانے کے لیے ہر کوئی تیار بھی ہو

کیسے روکے گا سفر میں کوئی رستہ جب کہ

دل میں اک جوش بھی ہو پاؤں میں رفتار بھی ہو

ساری امیدیں اسی ایک سہارے کی طرف

ناامیدی کے سفر میں وہی دیوار بھی ہو

ہر طرف سے نئے الزام کی بارش مجھ پر 

اپنے ہونے کا یہ احساس گنہ گار بھی ہو 

جس دعا کے لیے وہ رات کٹی آنکھوں میں

فاتحہ اپنے گناہوں کا بھی پڑھتا ہے ظفر

زندہ احساس کے ہو جانے سے بیزار بھی ہو


ظفر امام

No comments:

Post a Comment