ناؤ دریا میں چلے سامنے منجدھار بھی ہو
ڈوب جانے کے لیے ہر کوئی تیار بھی ہو
کیسے روکے گا سفر میں کوئی رستہ جب کہ
دل میں اک جوش بھی ہو پاؤں میں رفتار بھی ہو
ساری امیدیں اسی ایک سہارے کی طرف
ناامیدی کے سفر میں وہی دیوار بھی ہو
ہر طرف سے نئے الزام کی بارش مجھ پر
اپنے ہونے کا یہ احساس گنہ گار بھی ہو
جس دعا کے لیے وہ رات کٹی آنکھوں میں
فاتحہ اپنے گناہوں کا بھی پڑھتا ہے ظفر
زندہ احساس کے ہو جانے سے بیزار بھی ہو
ظفر امام
No comments:
Post a Comment