Friday, 9 December 2022

دیکھتی ہے آئینہ کس دیدۂ پر آب سے

تیزاب گردی پہ کہی گئی ایک نظم


 دیکھتی ہے آئینہ کس دیدۂ پُر آب سے

وہ جو اک حوّا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے

جل گئی ہے وہ کلی جس کو مہکنا تھا ابھی

چاند وہ گہنا گیا، جس کو دمکنا تھا ابھی

سِل گئے وہ غنچہ لب جن کو چٹکنا تھا ابھی

بے نوا بلبل ہوئی جس کو چہکنا تھا ابھی

مست آنکھیں مُند گئیں جن کو بہکنا تھا ابھی

چُوڑیاں کِرچی ہوئیں جن کو چھنکنا تھا ابھی

کان سے جُھمکے گِرے جن کو کھنکنا تھا ابھی

آرزوئے وصل کو دل میں دھڑکنا تھا ابھی

رنگ مدھم پڑ گئے جن کو بھڑکنا تھا ابھی

مانگ میں جس کی ستاروں کو چمکنا تھا ابھی

ہاں وہی حوّا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے

دن میں بھی اب دیکھتی ہے ہو بھیانک خواب سے

کون سمجھے گا کہ کیا ہے اس کے دل اضطراب

کون بانٹے گا جہاں میں اس کے جیون کا عذاب

کون لے گا ظالموں سے اس کے اشکوں کا حساب

اس روایت کو کوئی تو آج کر دے بے نقاب

کیوں ازل سے بنتِ حوّا ہی رہی زیرِ عتاب

یہ نہ کہہ دینا کہ ہے عورت کی قسمت ہی خراب

اس کے آنگن میں بھی کِھل سکتے ہیں خوشیوں کے گلاب

درس دیتی ہے یہی انسانیت کا الکتاب

جس مبارک ہاتھ سے ہونا ہے یہ کارِ ثواب

وہ جہاں میں سرخرو ہے آخرت میں کامیاب

یہ صدائیں گونجتی ہیں منبر و محراب سے

ہم سبھی مل کر نکالیں گے اسے گرداب سے

وہ جو اک حوّا کی بیٹی جل گئی تیزاب سے

دیکھتی ہے آئینہ کس دیدۂ پُر آب سے


ظفر نیازی

No comments:

Post a Comment