کب کسی کردار کی مرضی سے افسانہ بنا
میں تو عاشق بن گیا ہوں تُو بنا یا نہ بنا
کس طرح کوئی کرے ہجرت خود اپنے آپ سے
میں جو دیواروں میں آیا گھر ہی ویرانہ بنا
دو جہاں کا درد سہنے کو قیامت چاہیے
کتنا سمجھایا فرشتوں نے کہ دنیا نہ بنا
وہ یہ کہتا ہے کہ قلت ہی میں قیمت ہے یہاں
شہر ننگا ہو گیا تو سوٹ نذرانہ بنا
شاہ کے تھے دو ہی بیٹے دونوں نکلے کام کے
ایک بیٹھا تخت پر اور ایک دیوانہ بنا
سب کہانی جانتے ہیں اس دلِ برباد کی
اے مِرے آنسو! مِرا اتنا تماشہ نہ بنا
آگ اور پانی سے کاغذ کے بدن کو آزما
تو مصور ہے تو میرے دل کا مرجھانا بنا
عمران فیروز
No comments:
Post a Comment