اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
دیکھتی ہوں کہیں درازوں میں
چند کاغذ شکستہ بوسیدہ
اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے
منتظر سے اداس و افسردہ
رنگ دھندلے بہت سے لفظوں کے
اور نقطے تمام لرزیدہ
دیکھتی ہوں کسی لفافے میں
جلتے بجھتے چراغ لہجوں کے
زنگ کی تلخ خوشبوؤں والے
خشک مرجھائے باغ پھولوں کے
مسکراتے کہیں، کہیں پہ ملول
کھوتے ملتے سراغ اپنوں کے
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
دو گھڑی بات سب سے ہوتی ہے
یوں تو بے جان بے تعلق سی
اک ملاقات سب سے ہوتی ہے
لوگ تحریر میں جو ہوتے تھے
وہ کہیں بھی نظر نہیں آتے
وہ جو ہمراہ خط کے آتے تھے
اب وہ مہمان گھر نہیں آتے
پہلے یوں تھا کہ جیسے خط اپنا
خود ہی دہلیز پہ وہ ڈالتے تھے
پہلے یوں تھا کہ جیسے فقروں سے
مضمحل دل وہی سنبھالتے تھے
پہلے یوں تھا کہ مالکان خطوط
ان کو بچوں کی طرح پالتے تھے
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
اور جو لکھے تھے مدتوں پہلے
ان میں کتنے جلا دئیے تھے جبھی
وہم اور خوف کے تاثر میں
نقش ان کے مٹا دئیے تھے جبھی
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
لیکن اکثر کسی کسی شب میں
طاقِ نسیاں میں جو فروزاں ہیں
سوختہ جاں، محبتوں کے ثبوت
دل کے قرطاس پر وہ سارے خطوط
جاگ اٹھتے ہیں جگنوؤں کی طرح
چمک اٹھتے ہیں آنسوؤں کی طرح
اب مجھے کوئی خط نہیں لکھتا
اسنیٰ بدر
No comments:
Post a Comment