Friday, 9 December 2022

مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں جائیں

 مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں جائیں

پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں جائیں

میں دیا ہوں تو فقط کام مِرا جلنا ہے

آندھیاں کام کریں اپنا بجھائیں جائیں

پوچھیے مت رات میں نے کب کہاں کی سیر کی

فکر نے میرے مکاں کی لا مکاں کی سیر کی

وہ مِرے ہمراہ تھا جیسے کہ ہم ہوں بال و پر

خواب کے براق پر تھے کل جہاں کی سیر کی

آئینۂ حالات پہ مفتی کی غزل ہے

اک شوخئ جزبات پہ مفتی کی غزل ہے

نازل جو ہوئیں عشق میں اک مصحفِ دل پر

وہ پیار کی آیات یہ مفتی کی غزل ہے


ایاز مفتی

No comments:

Post a Comment