مجھ کو ساحل کی کہانی نہ سنائیں جائیں
پہلے طوفان سے کشتی کو بچائیں جائیں
میں دیا ہوں تو فقط کام مِرا جلنا ہے
آندھیاں کام کریں اپنا بجھائیں جائیں
پوچھیے مت رات میں نے کب کہاں کی سیر کی
فکر نے میرے مکاں کی لا مکاں کی سیر کی
وہ مِرے ہمراہ تھا جیسے کہ ہم ہوں بال و پر
خواب کے براق پر تھے کل جہاں کی سیر کی
آئینۂ حالات پہ مفتی کی غزل ہے
اک شوخئ جزبات پہ مفتی کی غزل ہے
نازل جو ہوئیں عشق میں اک مصحفِ دل پر
وہ پیار کی آیات یہ مفتی کی غزل ہے
ایاز مفتی
No comments:
Post a Comment