غم کی نمائش
اک آئینۂ کرب دل میں مسلسل
کسی سانپ کی طرح پھن کو نکالے
مجھے ڈس رہا ہے، مجھی میں سما کر
بضد ہے کہ بہہ جاؤں سیلاب بن کر
چھپا کر جو صدیوں سے رکھا ہے میں نے
نکالوں وہ طوفان جو موجزن ہے
مگر میں کسی کو دکھانا نہ چاہوں
وہ طوفان، سیلاب، شعلے اور آندھی
کہ مجھ کو پتہ ہے مزاجِ زمانہ
یہاں جشن مل کر مناتے ہیں، لیکن
کبھی غم میں غمخوار بنتے نہیں ہیں
یہ راہوں کو ہموار کرتے نہیں ہیں
بڑھاتے ہیں اور دشتِ غم کی کہانی
لہو میں نہاتی ہے دل کی اداسی
رواں ہے جو سیلابِ غم دل کے اندر
جو طوفان، شعلے اور آندھی ہیں مجھ میں
میں سینے میں پنہاں ہی رکھوں گی اپنے
انہیں میں امانت، اثاثہ سمجھ کر
تجوری میں رکھوں گی تالا لگا کر
عیاں وہ کسی پر کروں گی نہیں میں
کہ مجھ کو پتہ ہے مزاجِ زمانہ
میں غم کی نمائش کروں گی نہ ہرگز
سبیلہ انعام صدیقی
No comments:
Post a Comment