Thursday 15 December 2022

اداس رستوں کو حیران چھوڑ دیتے ہیں

 اداس رستوں کو حیران چھوڑ دیتے ہیں

تمہارے کہنے پہ ملتان چھوڑ دیتے ہیں

تُو جانتی ہی نہیں آسماں سے آئی ہوئی

کہ جنتوں کو بھی انسان چھوڑ دیتے ہیں

یہ شہری لوگ تو لمبے سفر کے دوست نہیں

ذرا سا دیکھ کے نقصان چھوڑ دیتے ہیں

بہانہ دیتے ہیں تم کو سُلگتی آنکھوں کا

سرہانے میر کا دیوان چھوڑ دیتے ہیں

محبتوں میں نہیں لاتے بیچ مذہب کو

کہ طاقچوں ہی میں قرآن چھوڑ دیتے ہیں

چلو بہاتے ہیں تحفے تمہارے نیلم میں

تمہاری جان، مِری جان چھوڑ دیتے ہیں


احمد عطاءاللہ

No comments:

Post a Comment