پرندے گھونسلوں سے کہہ کے یہ باہر نکل آئے
ہمیں اڑنے دیا جائے،۔ ہمارے پر نکل آئے
سفر میں زندگی کے میں ذرا سا لڑکھڑایا تھا
مجھے ٹھوکر لگانے پھر کئی پتھر نکل آئے
محبت سے کسی نے جب سفر کی مشکلیں پوچھیں
کئی کانٹے ہمارے پاؤں سے باہر نکل آئے
بہت سے راز بھی آئیں گے عالی جاہ پھر باہر
خفا ہو کر حویلی سے اگر نوکر نکل آئے
بظاہر ڈائری کے سارے ہی اوراق سادہ تھے
کِیا جب غور ان پر تو کئی منظر نکل آئے
وسیم نادر
No comments:
Post a Comment