ہر ایک چوک محلہ ہر اک گلی ہے مِری
کسے بتاؤں کہ اس شہر میں کوئی ہے مری
میں پہلے ہجر کے ہاتھوں ہی ہو گیا ہوں نڈھال
سو اولین محبت ہی آخری ہے مری
وجود سبزگی کی سمت آئے کیسے مِرا
کہ خاک بانجھ ہے بنجر ہے بھربھری ہے مری
میں باقی اشک بہاؤں گا بارگاہِ حضورؐ
نجف سے صبح مدینہ روانگی ہے مری
یہ بات مجھ کو بڑا سوگوار کر رہی ہے
تِرے بغیر جو اچھی گزر رہی ہے مری
رکھا گیا ہے مجھے منظروں سے اتنا دور
کہ مانتا نہیں میں کوئی آنکھ بھی ہے مری
تمہارے ہجر نے بھی کیا مِرا بگاڑ لیا
وہی ہوں میں ابھی تک شکل بھی وہی ہے مری
نئی غزل مِری ان کے لیے بطورِ خاص
جنہیں یقین ہے آواز مر چکی ہے مری
میں کوئٹہ کی طرف جاتے ڈر رہا ہوں فقیہہ
وہ اس لیے کہ، ہزارہ برادری، ہے مری
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment