Wednesday, 14 December 2022

مردم بیزار آدمی سے گفتگو

 مردم بیزار آدمی سے گفتگو


تنویر حسین تم نے برگد کے پیڑ کو تو دیکھا ہو گا

ایک جگہ پر منجمد، اپنے پاؤں پر اپنے جسم کے ناخن بڑھاتا

اپنے سائے سے تنگ، اپنی وحشت میں یکتا برگد کا درخت

میں وہی برگد کا درخت ہوں

میں نے پچھلے سات سالوں سے شب برات پر

خدا سے حالات حاضرہ پر کوئی گفتگو نہیں کی

میرے دن زمین کی گردش سے خوف زدہ ہو کر

میرے کمرے کی بوسیدہ کارپٹ پر ساکت پڑے رہے

میرے گھر کے مرکزی دروازے پر لگی ڈور بیل

پچھلے دو سال سے زنگ آلود ہو گئی

اور بالٹی میں پچھلے ایک ماہ سے پڑے کپڑے

میرے لیے کسی نئی نظم کا باعث نہ بن سکے

تنویر حسین میں بہت سالوں سے بھوکا ہوں

کچھ عرصہ پہلے جب میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر 

جھانک رہا تھا تو 

گلی میں ایک کپل ہنستے ہوئے دوسری سمت جارہا تھا

کچھ بچے کوئی کھیل کھیل رہے تھے

ایک گھر سے میاں بیوی کے 

جھگڑے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں

یہ تمام مناظر میری بھوک میں اضافہ کر گئے

میں لفظوں کی بھوک سے بہت کمزور پڑ چکا ہوں

بہت عرصے سے مجھے لگتا ہے میرے جبڑے اضافی ہیں

میں کئی محفلوں، میلوں میں 

لوگوں کے بچے کچھے لفظ جمع کرنے جاتا ہوں

مگر ہمیشہ واپسی پر میرے لفظوں کا شاپر پھٹ جاتا ہے

تنویر حسین مجھے بہت عرصے سے شور 

اور لوگوں کا آپس میں بات چیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے

لوگوں کا شور مجھے میرے وجود کے ہونے کا پتہ دیتا ہے

مگر جب اس شور کی سمت میری طرف بڑھتی ہے

تو میں بہت خوفزدہ ہو جاتا ہوں

میں کسی بھی تعلق کے لیے 

ایک نہایت نامناسب شخص ہوں

میں ایک جیسی آواز سے 

فقط چند دن تک دوستی کر سکتا ہوں

طویل رفاقت کے لیے ایک جیسی آواز کی 

فریکوئنسی جتنی کم ہو، بہتر ہے

تنویر حسین مجھے کتابوں سے رغبت نہیں رہی

خاص کر ایسی کتابیں جن میں کردار زیادہ ہوں

مجھے نہیں پسند کہ کہانی کے کردار کتاب سے نکل کر 

مجھ سے اپنی جان کی حفاظت کے لیے التجا کریں

مجھے اپنی پرسنل اسپیس بہت عزیز

مجھے شاعری سے کچھ خاص رغبت نہیں

شاعری لوگوں کا کھایا ہوا جھوٹا اور باسی دکھ ہے

میں کسی کا باسی دکھ نہیں کھا سکتا


تنویر حسین

No comments:

Post a Comment