بھلے ہی آنکھ مری ساری رات جاگے گی
سجا سجا کے سلیقے سے خواب دیکھے گی
اجالا اپنے گھروندے میں رہ گیا تو رات
کہاں قیام کرے گی کہاں سے گزرے گی
ہماری آنکھ سمندر کھنگالنے والی
یقین ہے کہ کبھی موتیوں سے کھیلے گی
خود اعتمادی ذرا اعتدال میں رکھیو
الٹ گئی تو وہ اپنی زبان بھولے گی
سہانی شام کے موسم میں کیوں اداسی ہے
ہوا ادھر سے چلی تو کہاں پہ ٹھہرے گی
کسی انا کو کوئی مصلحت نہ چھو پائے
یہی تو ہے کہ مِرا اعتبار رکھے گی
تمہارے سر پہ فضیلت کی چھانو ہے صاحب
خطا معاف تمہیں یہ کھنڈر بنا دے گی
ظفر امام
No comments:
Post a Comment