Wednesday, 14 December 2022

دوسری ملاقات ہجر کی پہلی شام سے اب تک

 دوسری ملاقات


ہجر کی پہلی شام سے اب تک

جتنی شامیں گزری تھیں

ان کی پتھر چُپ میں، میں نے

(اس کے سامنے کرنے والی)

کیا کیا باتیں سوچی تھیں

باتیں گزرے برسوں کی جو ہم نے الگ سے کاٹے ہیں

غموں کی اور ان خوشیوں کی ہم جن سے ہو کر گزرے ہیں

جیتوں اور ان ماتوں کی جو عمرِ رواں کا رزق ہوئیں

آسوں اور اُمنگوں کی جو دشتِ گُماں کا رزق ہوئیں

کیسے کیسے بھٹکے آہو، صحرائے امکان میں آئے

شمعِ طلب کے کیسے کیسے روشن پہلو دھیاں میں آئے

ڈھلتی رات کا جادو ہو گا

لمحہ لمحہ خوشبو ہو گا

پھول اور تتلی یکجا ہوں گے

رنگ ہوا سے پیدا ہوں گے

ایک ہی وصل کی بارش سے وہ سارے شکوے دھو دے گا

یعنی میرے ساتھ لپٹ کر، کچھ نہ کہے گا رو دے گا

ارمانوں کا پھول اچانک کھل ہی گیا

جس کے غم میں آنکھ برستی رہتی تھی

آج مجھے وہ مل ہی گیا

جس کو میری پیاس ترستی رہتی تھی

وہ ایک چھلکتا جام مِرے ہمراہ رہا

آج وہ ساری شام مِرے ہمراہ رہا

لیکن اب وہ اور تھا کوئی، اور تھا اس کا روپ نگر

اوس رُکی تھی آنکھوں میں تو راکھ جمی تھی بالوں پر

اور کوئی تھی دنیا اس کی اور تھے اس کے شام و سحر

(میری حیرت لکھی ہوئی تھی شاید میرے چہرے پر)

اس نے کہا، تم مجھے نہ دیکھو، آبِ روانِ وقت سے پوچھو

جیون کے اس پُل نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے

مجھ میں جو اک شخص تھا زندہ، وہ تو کب کا بکھر چکا ہے

میں تو فقط رستہ ہوں اس کا دریا جو تھا اتر چکا ہے

آؤ چلو اب اپنی اپنی دنیا کو ہم لوٹ چلیں

حدِ ابد تک اس رستے میں بکھرے ہیں غم لوٹ چلیں

پلٹے ہم تو ہم دونوں کے ساتھ زمانہ پلٹ گیا

ان دیکھی تعبیر لیے اک خواب پرانا پلٹ گیا

چاروں جانب بکھر رہی تھی

ایک ادھوری تنہائی

ہوا نے رُک کر ہم دونوں کو مُڑتے دیکھا تو گھبرائی

پت جھڑ کی دہلیز پہ اس نے

پیڑ سے کچھ سرگوشی کی

اس کے بعد اس راہگزر پر

دور تلک خاموشی تھی

آسماں پر بادل تھا اور اس میں تارے سمٹے تھے

ہم دونوں کے قدموں سے کچھ سُوکھے پتے لپٹے تھے


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment