مجھے تم پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جب تمہارے ہاتھ میں کباڑیے سے خریدی گئی
پرانی بائیسکل ہوا کرتی تھی
اور تم میلے میں اپنے پسندیدہ کھلونے خرید نہیں سکے تھے
تمہاری سردی گرمی اس قمیص میں کٹی جس کی جیب نہیں تھی
تم نے اپنے ادھ بھرے پیٹ کو خدا کی جانب سے نعمت سمجھا
اور تمہیں ایک مزید روٹی کے بدلے
ایک ڈراؤنی کہانی سنا کر سلا دیا گیا
مجھے تم پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جب تمہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے
پولیس، وکیل اور جج کو دینے کے لیے دولت نہیں تھی
تم ایک عام آدمی رہے
تمہارے نئے کپڑے کبھی نہ سلے
ایک عام آدمی گلی کا کیڑا ہے
جس کے ساتھ تصویر بنا کر شرفا اپنی انسانیت کی تشہیر کرتے ہیں
جسے مرنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں لائن لگنا پڑتا ہے
جس کی شفا صرف خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے
جو ہمیشہ ہر دن یہ سوچ کر گزار لیتا ہے
کہ اس کا بھی کہیں رزق لکھا ہے
معجزہ ہوتا ہے
مجھے تم پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جب تم نے یتیمی کی پہلی رات کاٹی تھی
تمہارا باپ جس کے پاس تمہیں پیار اور بے بسی سے دیکھنے
اور پرانی کتابیں دینے کے سوا کچھ نہیں تھا
تمہارے جہیز کا سامان اکھٹے کیے بغیر مرا
اور تمہیں بلوغت سے پہلے ہی بیاہنا پڑا
بیاہنا/شادی کرنا سوائے اس کے کیا ہے کہ
تمہیں دو وقت کی روٹی کے عوض
ایک مرد کی تسکین کے لیے پیش کر دیا گیا
وہ تمہارا مجازی خدا تمہارے لکڑی کے خواب بہت پہلے جلا آیا
ایک بہت بڑا گھر جہاں کچھ پالتو جانور، برتن اور تم ہو
چار دیواریں اور پانچویں تم ہمیشہ خاموش رہی
تم خاموش رہی جب وہ پہلی بار سالن خراب بننے پر چیخا
جب کپڑے کی استری خراب ہوئی
جب تمہیں مارا گیا
ٹھکرایا گیا
قتل کیا گیا
مجھے تم پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جب تمہارے ساتھ باتیں کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا
جب تمہارا دادا مرا تھا اور کوئی تمہیں کہانی نہیں سناتا تھا
جب تمہاری ماں مری تھی اور کسی نے
یہ نہیں پوچھا تھا کہ کھانا کب کھاؤ گے
کپڑے گندے نہ کرو، گلی میں کھیلنے نہ جاؤ وغیرہ وغیرہ
جب تم مسلسل کئی سال نوکری لینے میں ناکام ہوئے تھے
جب تم شدید بخار میں اکیلے ہسپتال گئے تھے
جب تم کئی کئی راتیں مسلسل جاگا کرتے
اور اس دن پر نظم لکھنی چاہیے تھی
جس دن وہ لڑکی تمہیں چھوڑ کر گئی تھی
جس کے تم نے ہمیشہ خواب دیکھے تھے
دنیا نے تمہاری خالی جیب تو دیکھی
مگر وہ تمہارے بھرے دل پر نظر نہ رکھ سکی
اسے تمہارے آنسوؤں نظر نہ آئے
وہ تمہارے خواب نہ دیکھ سکی
تنویر حسین
No comments:
Post a Comment