کبھی کوزہ، کبھی کاسہ، کبھی ساغر بناتے ہیں
یہ کیسی پیاس کی تسکین کوزہ گر بناتے ہیں
بناتے ہیں سفینے جو سمندر پار کرنے کو
وہی پتوار کے ہمراہ کیوں لنگر بناتے ہیں؟
چلو مانا کے محنت سے مکاں تم ہی بناتے ہو
محبت سے مگر اپنی ہمیں تو گھر بناتے ہیں
جو پہلے ہتھکڑی اور بیڑیاں تھی بنتِ حوا کی
اب ان کی شکل کے اہلِ جہاں زیور بناتے ہیں
پھر اس کا وقتِ رخصت لوٹ کر آنا، پلٹ جانا
ہم اپنی آنکھ میں ہر رات وہ منظر بناتے ہیں
طبیعت خود بخود مائل کیا کرتی ہے جذبوں کو
کبھی کیا سوچ کر ہم دوست یا دلبر بناتے ہیں؟
وہ بھولا پھر کسی بھی شام گھر واپس نہیں لوٹا
حنا ماں باپ جس کا آج بھی بستر بناتے ہیں
حنا رضوی حیدر
No comments:
Post a Comment