اک سانولی کی دید زیارت تھی طور کی
انجیل کی طرح تھی وہ آیتِ زبور کی
تصویر ہو رہی تھی ہر اک رنگ سے تہی
لبریز گوش کرتی صدا ایک دور کی
آنکھوں میں ایک تیز اجالے کا خوف تھا
امڈی ہوئی تھی دل میں گھڑی اک سرور کی
آیا تھا اور شخص کوئی بھاگتا ہوا
میں نے فصیلِ کرب کہاں سے عبور کی
میں نے تمام عمر گزاری تھی عشق میں
لیکن کسی بھی لمحہ مصیبت نہ دور کی
اک ٹوٹی پھوٹی خستہ سڑک سے گزر گیا
آخر عبور ہو گئی منزل شعور کی
توقیر ایک ٹرین میں محوِ سفر تھا میں
رستے میں آئی ایک ندی جب عبور کی
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment