ہجراں پہ گزر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
وحشت کو بسر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
دیوار کو در کہنا تو آسان ہے صاحب
دیوار کو در کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
ہر آنکھ ہے مسحور یہ منظر کا اثر ہے
منظر پہ اثر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
اپنے تئیں سقراط بنے پھرتے ہو تم بھی
وہ کام مگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
ظلمت سے شکایت تو بہرحال ہے سب کو
اس شب کی سحر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
پانی پہ چلے کوئی یہ ہو ہی نہیں سکتا
ہاں بارِ دگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
اتنا ہی جنوں ہے تو چلے آؤ کسی دن
مجھ دشت کو سر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
خود بینی خدا بینی سے کم لگتی ہے تم کو
تم خود میں سفر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
دعوی ہے تو پھر بحر کو بر کر کے دکھا دو
یا خشک کو تر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
ایسا ہے تو پھر صلح کرا دو مِری خود سے
یہ کام اگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
مانا سبھی کردار ہیں اس کھیل میں فانی
تم خود کو امر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
خوش فہمی تمہاری کہ لبھا سکتی ہو مجھ کو
دل میں مِرے گھر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
تم اتنے ہلاکو ہو تو یہ دل کی گلی ہے
یہ زیر و زبر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
شوزیب یہ غزلوں کی تو پھر بات ہی چھوڑو
اک مصرعۂ تر کر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں
شوزیب کاشر
No comments:
Post a Comment