Sunday 18 December 2022

ہجراں پہ گزر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

 ہجراں پہ گزر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

وحشت کو بسر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

دیوار کو در کہنا تو آسان ہے صاحب

دیوار کو در کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

ہر آنکھ ہے مسحور یہ منظر کا اثر ہے

منظر پہ اثر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

اپنے تئیں سقراط بنے پھرتے ہو تم بھی

وہ کام مگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

ظلمت سے شکایت تو بہرحال ہے سب کو

اس شب کی سحر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

پانی پہ چلے کوئی یہ ہو ہی نہیں سکتا

ہاں بارِ دگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

اتنا ہی جنوں ہے تو چلے آؤ کسی دن

مجھ دشت کو سر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

خود بینی خدا بینی سے کم لگتی ہے تم کو

تم خود میں سفر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

دعوی ہے تو پھر بحر کو بر کر کے دکھا دو

یا خشک کو تر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

ایسا ہے تو پھر صلح کرا دو مِری خود سے

یہ کام اگر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

مانا سبھی کردار ہیں اس کھیل میں فانی

تم خود کو امر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

خوش فہمی تمہاری کہ لبھا سکتی ہو مجھ کو

دل میں مِرے گھر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

تم اتنے ہلاکو ہو تو یہ دل کی گلی ہے

یہ زیر و زبر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں

شوزیب یہ غزلوں کی تو پھر بات ہی چھوڑو

اک مصرعۂ تر کر کر کے دکھاؤ تو میں مانوں


شوزیب کاشر 

No comments:

Post a Comment