کس منہ سے زندگی کو وہ رخشندہ کہہ سکیں
جو مہر و ماہ کو بھی نہ تابندہ کہہ سکیں
وہ دن بھی ہوں غبار چھٹیں، آندھیاں ہٹیں
اور گل کو رنگ و بُو کا نمائندہ کہہ سکیں
تازہ رکھیں سدا خلشِ زخم کو، کہ ہم
جو اب نہ کہہ سکے کبھی آئندہ کہہ سکیں
زنداں میں کوئی روزنِ زنداں تو ہو کہ لوگ
جس حال میں بھی دیکھیں ہمیں زندہ کہہ سکیں
ہر شے بدل رہی ہے عجب عجلتوں میں رنگ
کوئی تو نقش ہو جسے پائندہ کہہ سکیں
دل کے سوا ہے کون سا ایسا چراغ شام
بے نور ہو کے بھی جسے رخشندہ کہہ سکیں
صدیوں نوا گروں کو میسر نہ آ ملے
وہ گیت جن کو حسرت سازندہ کہہ سکیں
اس دور میں ہر اک کو ہے خود اپنی جستجو
کوئی نہیں جسے تِرا جوئندہ کہہ سکیں
ہر سو اداس چہرے ہیں اتنے کہ اب نسیم
کس کو دیارِ درد کا باشندہ کہہ سکیں
صادق نسیم
No comments:
Post a Comment