Friday 9 December 2022

تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا

 تشنہ لب کوئی جو سرگشتہ سرابوں میں رہا 

بستۂ وہم و گماں بھاگتا خوابوں میں رہا

دل کی آوارہ مزاجی کا گِلہ کیا کیجے 

خانہ برباد رہا، خانہ خرابوں میں رہا

ایک وہ حرف جنوں نقش گر لوح و قلم 

ایک وہ باب خرد بند کتابوں میں رہا

بے حسی وہ ہے کہ اس دور میں جینے کا مزا 

نہ گناہوں میں رہا اور نہ ثوابوں میں رہا

جمع کرتا رہا یہ سود و زیاں کے اعداد 

عمر بھر ذہن بشر الجھا حسابوں میں رہا

اب کوئی اور ہی شے وجہ نشاط دل ہو 

نشہ و کیف شرر اب نہ شرابوں میں رہا


شرر فتحپوری

رام سنگھ

No comments:

Post a Comment