اسے فکر کیا تھی وہ اپنی ہی دھن میں یہ دنیا بچانے کی ضد پر اڑا تھا
ہمارے بچھڑنے سے کچھ پہلے تک وہ کسی بھی قیامت کو کب مانتا تھا
عجب چھب تھی اس کی عجب تھی فقیری میں ایسے شہنشاہ کو دیتا بھی کیا
جو کاسے کو تاجِ سکندر سمجھتا،۔ جو خلعت کو دستِ طلب مانتا تھا
سبھی ہنستے ہم پر اسے خوف آتا،۔ سو مجھ پر وہی پہلا پتھر اٹھاتا
وہ مجھ کو فقط ایک پاگل سمجھتا میں جس شخص کو اپنا سب مانتا تھا
میں آخر تھا بجھتے چراغوں کی صف میں مرے سامنے ایسا دورِ فتن تھا
جو سورج بجھانے کی ضد پر اڑا تھا،۔ جو دن کو کنایۂ شب مانتا تھا
محبت میں بھی شرک، استغفراللہ کہ اس جرم کی کچھ معافی نہیں تھی
امیرِ سخن! تجھ کو کیا ہو گیا تھا، کہ تُو ایک بندے کو رب مانتا تھا
امیر سخن
No comments:
Post a Comment