Monday, 13 March 2023

اسے فکر کیا تھی وہ اپنی ہی دھن میں

 اسے فکر کیا تھی وہ اپنی ہی دھن میں یہ دنیا بچانے کی ضد پر اڑا تھا

ہمارے بچھڑنے سے کچھ پہلے تک وہ کسی بھی قیامت کو کب مانتا تھا

عجب چھب تھی اس کی عجب تھی فقیری میں ایسے شہنشاہ کو دیتا بھی کیا

جو کاسے کو تاجِ سکندر سمجھتا،۔ جو خلعت کو دستِ طلب مانتا تھا

سبھی ہنستے ہم پر اسے خوف آتا،۔ سو مجھ پر وہی پہلا پتھر اٹھاتا

وہ مجھ کو فقط ایک پاگل سمجھتا میں جس شخص کو اپنا سب مانتا تھا 

میں آخر تھا بجھتے چراغوں کی صف میں مرے سامنے ایسا دورِ فتن تھا

جو سورج بجھانے کی ضد پر اڑا تھا،۔ جو دن کو کنایۂ شب مانتا تھا

محبت میں بھی شرک، استغفراللہ کہ اس جرم کی کچھ معافی نہیں تھی

امیرِ سخن! تجھ کو کیا ہو گیا تھا، کہ تُو ایک بندے کو رب مانتا تھا


امیر سخن

No comments:

Post a Comment