خلا میں کن کی گونجی ہے صدا آہستہ آہستہ
کئی رنگوں میں اک دریا بہا آہستہ آہستہ
مسلسل دائرے میں گھومتے ہیں سارے سیارے
وہ اک مرکز ہمیں ہے کھینچتا آہستہ آہستہ
اگر کشتی کوئی بھٹکے تو اس کو رہ دکھاتی ہے
کناروں سے ملاتی ہے ہوا آہستہ آہستہ
تمہارا ذکر بیری اور میں اک ساتھ کرتے تھے
ثمر دونوں کو ہی میٹھا ملا آہستہ آہستہ
میں اک محور میں رقصاں ہو کہ روشن ہو رہا ہوں اور
ستارہ بن رہا ہے تن مرا آہستہ آہستہ
میں اپنے جسم سے باہر نکل کر دیکھتا ہوں یہ
سمے کیا رک گیا یا چل رہا آہستہ آہستہ
تمہارے دشت کے ذرے بنیں گے کہکشاں احسن
تو دیوانہ تو بن پر خاک اڑا آہستہ آہستہ
احسن علی
علی احسن
No comments:
Post a Comment