Saturday, 1 April 2023

پڑے ہوئے ہیں ہم ذرا اٹھا سنبھال کر ہمیں

 پڑے ہوئے ہیں ہم، ذرا اٹھا سنبھال کر ہمیں

سنبھل گئے ہیں ہم، اب ایسا کر بحال کر ہمیں

یہ وقت آ گیا ہے اپنی جیب سے نکال کر

دوراہے پر اب ایک راہ لے اچھال کر ہمیں

تِرا خیال تھا یہ کوہِ غم نہ سر کریں گے ہم

یہ دیکھ اب اتر رہے ہیں ہم، نڈھال کر ہمیں

تو کیا یہ رات کاٹنی ہے دل سے گفتگو میں اب

تو ٹھیک ہے، پھر ایک کام کر، خیال کر ہمیں

ابھرتے ڈوبتے مگر کہیں تو جا نکلتے ہم

لگا دیا گیا کنارے جال ڈال کر ہمیں

یہ قتل گاہ دیکھ کر خیال آ رہا ہے اب

اسی لیے بڑا کیا گیا تھا پال کر ہمیں!؟

دِیے کی لو سے جس طرح یہ دل بنا رہا ہے تُو

ہوا بنا کے درد کی بھی اک مثال کر ہمیں

دعائے علم تختیوں پہ بچپنے میں جو لکھی

قبول کر وہ اے علیم! مالا مال کر ہمیں

میانِ رزمِ عشق، خاک ہو رہے ہیں کامران

اگر تُو شہہ سوار ہے تو پائمال کر ہمیں


کامران نفیس

No comments:

Post a Comment