ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں جو کھارے پانی کا ذائقہ ہے
یہ نوجوانی کا تجرِبہ تھا،۔ یہ رائیگانی کا ذائقہ ہے
ٹپک رہا ہےجو شہد اب بھی ہمارے شعروں سے خوشبووں کا
کسی نے چومے تھے ہاتھ دل سے یہ اس نشانی کا ذائقہ ہے
وہ نقش ایسے ہے جیسے ہلکے کلر سے بنتی شدید حیرت
وہ شخص ایسے ہے جیسے آباد بیکرانی کا ذائقہ ہے
اسی کو تصویر کرتے کرتے میں آپ تصویر ہو گیا ہوں
وہ خواب منظر کہ جس میں صدیوں سے خوشگمانی کا ذائقہ ہے
خدا محبت کی خاص گردش میں گھولتا ہے خمیر اس کا
زمیں کے اعصاب میں ہمیشہ کی زندگانی کا ذائقہ ہے
یہ نا سمجھ آنے والا کردار تیری چوپال کی ہے رونق
وہ سانس لیتا ہوا تحیّر مِری کہانی کا ذائقہ ہے
یہ حرف و آواز کا ہنر تو بہت زمانوں کے بعد آیا
ہمارے پہلے مکالمے میں تو بے زبانی کا ذائقہ ہے
سنا ہے تو نے بھی لاوجودی کا توڑ پایا تھا اک بدن سے
اسی لیے تیری لامکانی میں بھی مکانی کا ذائقہ ہے
گل جہان
No comments:
Post a Comment