میرے بستر پر سویا ہوا آدمی
میرے بستر پر سویا ہوا آدمی میرے لیے
ایک اجنبی ہے
یہ خود کو میرے بچوں کا باپ بتاتا ہے
میں بھی اپنے بچوں کو یہی بتاتی ہوں
اس اجنبی اور میرے بیچ
یہی ایک سچ ہے
میری ماں نے بچپن میں مجھے بتایا تھا
یہ سیاہ داڑھی والا آدمی تمہارا باپ ہے
یہ پہلا سچ تھا جو مجھے سفید جھوٹ لگا
اپنی ماں پر تہمت باندھنے والی لڑکی کا رشتہ
کبھی بھی اچھی جگہ نہیں ہو سکتا
چاہے اس نے کبھی کسی کا دل بھی نہ دکھایا ہو
جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کا پیمانہ
بڑے لوگوں کے بیڈ رومز کی طرح الگ الگ ہوتا
میری پیالی میں انڈیلا گیا سچ
کسی کا جھوٹ تھا
اور میں نے کسی کی پیالے میں
اپنا جھوٹ سچ بنا کر ڈالا تھا
حیرانی کی بات یہ ہے کہ
اس زہر کو امرت سمجھ کر پینے والا شخص
ابھی تک زندہ ہے
حالانکہ اس واقعہ کو پانچ سال گزر چکے ہیں
میں اسے یہ بری خبر دینا نہیں چاہتی
لیکن مجھے لگتا ہے وہ بہت طویل عمر پائے گا
زندگی کی عمارت یقین کی بنیاد پر ہی کھڑی رہ سکتی ہے
شک موت ہے
یقین کے ساتھ مرنے والے قبروں میں زندہ دفن ہوتے ہیں
وہ اس وقت تک نہیں مرتے جب تک ان کے چاہنے والے
یا کم از کم جاننے والے زندہ ہوں
پیاس لگی ہو تو کسی بھی شے سے بجھائی جا سکتی ہے
اس کے لیے پسندیدہ مشروب کی دستیابی شرط نہیں
مگر تمہیں یہ سب باتیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا
کیونکہ تم جھوٹ کا زہر اور
سچ کی کڑوی شراب دونوں پی لیتے ہو
مجھے یاد ہے جب میں نے
تمہیں تمہاری سچی شراب کی جگہ اپنا زم زم کا جھوٹا پانی دیا تھا
اور تم نشے میں روتے روتے میری ران پر سر رکھ کر سو گئے تھے
تمہیں دیکھ کر مجھے لگتا ہے
سگریٹ اور شراب پینے والے مرد اچھے ہوتے ہیں
جو ہر عورت کو اچھی عورت سمجھتے ہیں
مگر میرے بستر پر سویا ہوا آدمی
کوئی نشہ نہیں کرتا
خوش بخت بانو
No comments:
Post a Comment