ہار کے نسخۂ تسخیر سمجھ لیتے ہیں
اب مخالف میری تدبیر سمجھ لیتے ہیں
ہم وہ احساس کا احسان اٹھائے ہوئے لوگ
جو تعلق کو ہی زنجیر سمجھ لیتے ہیں
کچھ بتائیں گے میری آنکھ میں چھالوں کا جواز
آپ تو خواب کی تعبیر سمجھ لیتے ہیں
ہجر دیتا ہے قرابت کے سوالوں کا جواب
عشق سے کلیۂ تفسیر سمجھ لیتے ہیں
مر نہ جائیں گے اگر آپ نے ہمدردی کی
جو تکلف کو ہی تحقیر سمجھ لیتے ہیں
ہم پہ گرتا ہے جو اس رش میں کوئی ٹھوکر کھا کر
ہم اسے خود سے بغلگیر سمجھ لیتے ہیں
کوئی بھولے سے بھی گر اس کی طرف آ جائے
دل کو اس شخص کی جاگیر سمجھ لیتے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں لیے بانسری اک پیڑ کے پاس
اور تصور میں تجھے ہیر سمجھ لیتے ہیں
وہ جو ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتے ہیں
اس مقدر کو ہی تقدیر سمجھ لیتے ہیں
شہر دیتا ہے تیرا طعنۂ ہجرت تو مجھے
گاؤں والے میرے راہگیر سمجھ لیتے ہیں
کیا خبر اب کے جدائی میں سکوں مل جائے
آؤ اس زہر کو اکسیر سمجھ لیتے ہیں
عمر کرتے ہیں وہ گفتگو پازیب کے ساتھ
جو تیرے رقص کو تفسیر سمجھ لیتے ہیں
ہم تو پھر ہم ہیں کہ مضمونِ محبت کے طفیل
لفظ تحریر کی تاثیر سمجھ لیتے ہیں
اتنے اعصاب شکستہ ہیں محبت میں کہ ہم
پھول پھینکے جو کوئی تیر سمجھ لیتے ہیں
اس نے مٹی پہ وفا لکھ کے کہا مجھ سے ضمیر
آپ اس جرم کی تعزیر سمجھ لیتے ہیں
ضمیر قیس
ضمیر حسن
No comments:
Post a Comment