Saturday, 1 April 2023

ہار کے نسخۂ تسخیر سمجھ لیتے ہیں

 ہار کے نسخۂ تسخیر سمجھ لیتے ہیں

اب مخالف میری تدبیر سمجھ لیتے ہیں

ہم وہ احساس کا احسان اٹھائے ہوئے لوگ

جو تعلق کو ہی زنجیر سمجھ لیتے ہیں

کچھ بتائیں گے میری آنکھ میں چھالوں کا جواز

آپ تو خواب کی تعبیر سمجھ لیتے ہیں

ہجر دیتا ہے قرابت کے سوالوں کا جواب

عشق سے کلیۂ تفسیر سمجھ لیتے ہیں

مر نہ جائیں گے اگر آپ نے ہمدردی کی

جو تکلف کو ہی تحقیر سمجھ لیتے ہیں

ہم پہ گرتا ہے جو اس رش میں کوئی ٹھوکر کھا کر

ہم اسے خود سے بغلگیر سمجھ لیتے ہیں

کوئی بھولے سے بھی گر اس کی طرف آ جائے

دل کو اس شخص کی جاگیر سمجھ لیتے ہیں

بیٹھ جاتے ہیں لیے بانسری اک پیڑ کے پاس

اور تصور میں تجھے ہیر سمجھ لیتے ہیں

وہ جو ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتے ہیں

اس مقدر کو ہی تقدیر سمجھ لیتے ہیں

شہر دیتا ہے تیرا طعنۂ ہجرت تو مجھے

گاؤں والے میرے راہگیر سمجھ لیتے ہیں

کیا خبر اب کے جدائی میں سکوں مل جائے

آؤ اس زہر کو اکسیر سمجھ لیتے ہیں

عمر کرتے ہیں وہ گفتگو پازیب کے ساتھ

جو تیرے رقص کو تفسیر سمجھ لیتے ہیں

ہم تو پھر ہم ہیں کہ مضمونِ محبت کے طفیل

لفظ تحریر کی تاثیر سمجھ لیتے ہیں

اتنے اعصاب شکستہ ہیں محبت میں کہ ہم

پھول پھینکے جو کوئی تیر سمجھ لیتے ہیں

اس نے مٹی پہ وفا لکھ کے کہا مجھ سے ضمیر

آپ اس جرم کی تعزیر سمجھ لیتے ہیں


ضمیر قیس

ضمیر حسن

No comments:

Post a Comment