ہوس نے مجھ سے پوچھا تھا تمہارا کیا ارادہ ہے
بدن کارِ محبت میں برائے استفادہ ہے
کبھی پہنا نہیں اس نے مِرے اشکوں کا پیراہن
اداسی میری آنکھوں میں ازل سے بے لبادہ ہے
بھڑک کر شعلۂ وحشت لہو میں بجھ گیا ہو گا
زرا سی آگ تھی لیکن دھواں کتنا زیادہ ہے
مجھے مسکن سمجھتے ہیں عجب آسیب ہیں غم کے
میں اک دو سے نمٹ بھی لوں یہ پورا خانوادہ ہے
اسے دھندے سے مطلب ہے وہ دیمک بیچنے والا
اسے وہ خاک سمجھے گا، یہ خوابوں کا برادہ ہے
مجھے شطرنج کے خانوں میں چلنا تُو سکھائے گا؟
میں فرزیں بن چکا کب کا، تُو اب تک اک پیادہ ہے
نجانے کاتبِ تقدیر نے کیا لکھ دیا اس پر
مِری تقدیر کا صفحہ نہ سیدھا ہے نہ سادہ ہے
میں اس حالت میں زیب آخر کہاں چلتے ہوئے جاؤں
نہ مجھ میں حوصلہ باقی نہ منزل ہے نہ جادہ ہے
زیب اورنگ زیب
No comments:
Post a Comment