عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
منور میری آنکھوں کو مِرے شمس الضحیٰؐ کر دیں
غموں کی دھوپ میں وہ سایۂ زلف دو تا کر دیں
جہاں بانی عطا کر دیں، بھری جنت ہبہ کر دیں
نبیؐ مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دیں
جہاں میں ان کی چلتی ہے وہ دم میں کیا سے کیا کر دیں
زمیں کو آسماں کر دیں، ثریا کو ثریٰ کر دیں
فضا میں اُڑنے والے یوں نہ اِترائیں ندا کر دیں
وہ جب چاہیں جسے چاہیں اسے فرماں روا کر دیں
ہر اک موجِ بلا کو بحرِ غم میں نا خدا کر دیں
مِری مشکل کو یوں آساں مِرے مشکل کشا کر دیں
عطا ہو بے خودی مجھ کو خودی میری ہوا کر دیں
مجھے یوں اپنی اُلفت میں مِرے مولیٰ فنا کر دیں
نبیؐ سے ہو جو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر، مادر، برادر، مال و جاں انؐ پر فدا کر دیں
تبسم سے گماں گزرے شبِ تاریک پر دن کا
ضیائے رُخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کر دیں
شب تاریک پر دن کا گماں گزرے تبسم سے
ضیائے رُخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کر دیں
کسی کو وہ ہنساتے ہیں کسی کو وہ رُلاتے ہیں
وہ یونہی آزماتے ہیں وہ اب تو فیصلہ کر دیں
گلِ طیبہ میں مل جاؤں گلوں میں مل کے کھل جاؤں
حیاتِ جادوؐانی سے مجھے یوں آشنا کر دیں
یہ دورِ آزمائش ہے انہیں منظور ہے جب تک
نہ چاہیں تو ابھی وہ ختم دورِ ابتلاء کر دیں
سگ آوارۂ صحرا سے اُکتا سی گئی دنیا
بچاؤ اب زمانے کا سگانِ مصطفیٰﷺ کر دیں
زمانہ خُوگر مے ہے نئی مے کی ضرورت ہے
پلا کر اپنی نظروں سے وہ تجدید نشہ کر دیں
مجھے کیا فکر ہو اختر مِرے یاور ہیں وہ یاور
بلاؤں کو جو میری خود گرفتارِ بلا کر دیں
اختر رضا قادری بریلوی
No comments:
Post a Comment