عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
پہنچوں اگر میں روضۂ انور کے سامنے
سب حالِ دل بیاں کروں سرورؐ کے سامنے
جالی پکڑ کے عرض کروں حالِ دل کبھی
آنسو بہاؤں میں کبھی منبر کے سامنے
ہر دم یہ آرزو ہے مدینے کے چاند سے
بستر فقیر کا ہو تِرےؐ در کے سامنے
جنت کی آرزو ہے نہ خواہش ہے حُور کی
ٹکڑا ملے زمیں کا تِرے در کے سامنے
شاہ مدینہؐ طیبہ میں مجھ کو بلا تو لیں
لوٹوں گا خاک پاک پہ میں در کے سامنے
یوں میری موت ہو تو حیاتِ اَبد ملے
خاک مدینہ سر پہ سرورؐ کے سامنے
نکلے جو جاں تو دیکھ کے گنبد حبیبؐ کا
مدفن بنے تو روضۂ اطہر کے سامنے
منگتا کی کیا شمار سلاطین روزگار
آتے ہیں بھیک لینے تِرےؐ در کے سامنے
دونوں جہاں کی نعمت کونین بانٹتا
کچھ بات بھی ہو میرے تونگر کے سامنے
یوں انبیاءؑ میں شاہ دو عالمؐ ہیں جلوہ گر
جیسے ہو چاند انجم و اختر کے سامنے
خوشبوئے مُشکِ زُلفِ معنبر کے سامنے
ایسی ہے جیسے خاک ہو گوہر کے سامنے
گلزار و باغ و گل کی نہ خواہش رہے تجھے
اے عندلیب میرے گلِ تر کے سامنے
کیوں روکتے ہو خُلد سے مجھ کو ملائکہ
اچھا چلو تو شافع محشرﷺ کے سامنے
جاری ہے العطش کی صدا ہر زبان پر
میلہ لگا ہے چشمۂ کوثر کے سامنے
دِکھلا رہے ہیں سُوکھی زبانیں حضور کو
پیاسے کھڑے ہیں ساقئ کوثر کے سامنے
جو کوئی بھی کرے گا شفاعت وہ ان کے پاس
یہ ہیں شفیعﷺ داورِ محشر کے سامنے
انکار کر نہ فضلِ نبیؐ سے تُو اے شقی
جانا ہے تجھ کو داورِ محشر کے سامنے
ہے قادری جمیل کی یہ عرض آخری
ہو قبر اس کی روضۂ اطہر کے سامنے
جمیل رضوی قادری
No comments:
Post a Comment