Monday, 17 July 2023

بہ خط نور اس در پر لکھا ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


بہ خطِ نور اس در پر لکھا ہے

یہ بابِ رحمتِ ربِّ عُلا ہے

سر خیرہ جو اس در پر جُھکا ہے

ادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے

مقابل در کے یوں کعبہ بنا ہے

یہ قبلہ ہے تو تُو قبلہ نما ہے

یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہے

سخی داتا کی یہ دولت سرا ہے

جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہے

حقیقت میں وہ اس در کی عطا ہے

یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں

اسی در سے انہیں ٹکڑا ملا ہے

شبِ معراج سے ظاہر ہوا ہے

رُسل ہیں مُقتدی، تُوؐ مقتدا ہے

خدائی کو خدا نے جو دیا ہے

اسی در سے اسی گھر سے ملا ہے

شہ عرش آستاں اللہ اللہ

تصور سے خدا یاد آ رہا ہے

یہ وہ محبوبِ حق ہے جس کی رویت

یقیں مانو کہ دیدارِ خدا ہے

رمی جس کی رمی ٹھہری خدا کی

کتاب اللہ میں اللہ رمیٰ ہے

ہَوا سے پاک جس کی ذاتِ قدسی

وہ جس کی بات بھی وحیِ خدا ہے

وہ یکتا آئینہ ذاتِ اَحد کا

وہ مرآتِ صفاتِ کبریا ہے

جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ

جہاں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے

کرم فرمائیے اے سرورِ دیںﷺ

جہاں منگتوں کی یہ پیہم صدا ہے

خزانے اپنے دے کے تم کو حق نے

نہ قاسم ہی کہ مالک کر دیا ہے

جسے جو چاہو جتنا چاہو دو تم

تمہیں مختارِ کُل فرما دیا ہے

نہیں تقسیم میں تفریق کچھ بھی

کہ دشمن بھی یہیں کا کہہ رہا ہے

ضیائے کعبہ سے روشن ہیں آنکھیں

منور قلب کیسا ہو گیا ہے

مے محبوب سے سرشار کر دے

اویسِؒ قرنی کو جیسا کیا ہے

گُما دے اپنی الفت میں کچھ ایسا

نہ پاؤں میں میں میں جو بے بقا ہے

عطا فرما دے ساقی جامِ نوری

لبا لب جو چہیتوں کو دیا ہے


نوری بریلوی

مصطفیٰ رضا

No comments:

Post a Comment