جنوں کو ضبط سکھا لوں تو پھر چلے جانا
میں اپنا آپ سنبھالوں تو پھر چلے جانا
اسی طرح ہے ابھی تشنگی ان آنکھوں میں
میں ان کی پیاس بُجھا لوں تو پھر چلے جانا
میرا یہ وہم کہ تم لوٹ کر نہ آؤ گے
یہ وہم دل سے نکالوں تو پھر چلے جانا
بیاضِ دل پہ جو گزری ہے صورت الہام
وہی غزل میں سُنا لوں تو پھر چلے جانا
نثار ہوتے ہیں کیسے شمع پہ یہ پروانے
یہ جشن تم کو دِکھا لوں تو پھر چلے جانا
شبِ فراق کے سائے تھے کچھ رفیق میرے
انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر چلے جانا
قسم گناہ کی میں پی کر بہک نہیں سکتا
اگر میں جام اُچھالوں، تو پھر چلے جانا
یہ گفتگو تھی ستاروں کی کہ تم نہ آؤ گے
میں ان کی شمعیں بُجھا لوں تو پھر چلے جانا
پڑے ہیں داغ میرے دل پہ بد گُمانی کے
یہ داغ دل سے مِٹا لوں تو پھر چلے جانا
فاروق روکھڑی
No comments:
Post a Comment