Thursday, 20 July 2023

جنوں کو ضبط سکھا لوں تو پھر چلے جانا

 جنوں کو ضبط سکھا لوں تو پھر چلے جانا

میں اپنا آپ سنبھالوں تو پھر چلے جانا

اسی طرح ہے ابھی تشنگی ان آنکھوں میں

میں ان کی پیاس بُجھا لوں تو پھر چلے جانا

میرا یہ وہم کہ تم لوٹ کر نہ آؤ گے

یہ وہم دل سے نکالوں تو پھر چلے جانا

بیاضِ دل پہ جو گزری ہے صورت الہام

وہی غزل میں سُنا لوں تو پھر چلے جانا

نثار ہوتے ہیں کیسے شمع پہ یہ پروانے

یہ جشن تم کو دِکھا لوں تو پھر چلے جانا

شبِ فراق کے سائے تھے کچھ رفیق میرے

انہیں گلے سے لگا لوں تو پھر چلے جانا

قسم گناہ کی میں پی کر بہک نہیں سکتا

اگر میں جام اُچھالوں، تو پھر چلے جانا

یہ گفتگو تھی ستاروں کی کہ تم نہ آؤ گے

میں ان کی شمعیں بُجھا لوں تو پھر چلے جانا

پڑے ہیں داغ میرے دل پہ بد گُمانی کے

یہ داغ دل سے مِٹا لوں تو پھر چلے جانا


فاروق روکھڑی

No comments:

Post a Comment