ہمیشہ ہجرتوں کے سلسلے اچھے نہیں لگتے
ہمیں اب روکھے پھیکے ذائقے اچھے نہیں لگتے
ستارے ان کی منزل کا کبھی عنواں نہیں بنتے
جنہیں پُر خار تنہا راستے اچھے نہیں لگتے
مجھے اڑ جانے دے تاکہ فضا کا جائزہ لے لوں
سنہری پٹیوں سے پر بندھے اچھے نہیں لگتے
ستاروں کو کہاں آرام ملتا ہے اندھیرے میں
جبھی تو مجھ کو یہ جلتے دِیے اچھے نہیں لگتے
کبھی وہ بات بھی کہہ دے کہ جو دل میں اتر جائے
بنا سر پیر کے کچھ فلسفے اچھے نہیں لگتے
اگر بہہ جائیں آنسو تو کھلے رخسار کی رنگت
رکے پلکوں پہ تو یہ قافلے اچھے نہیں لگتے
میں اپنے ہی جنوں سے ایک نیا عالم بناؤں گا
مجھے پابند کرتے دائرے اچھے نہیں لگتے
افروز عالم
No comments:
Post a Comment