محل سرا کا جو نقشہ دکھائی دیتا ہے
امیرِ شہر بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
وہ کہہ رہے ہیں سرابِ نظر ہے کچھ بھی نہیں
مجھے تو آنکھ میں دریا دکھائی دیتا ہے
ذرا جو غور سے دیکھیں تو لامکان سے بھی
مِرے مکان کا ملبہ دکھائی دیتا ہے
یہی وہ دشتِ گماں ہے چلے چلو کہ یہاں
سفر کے بعد ہی رستہ دکھائی دیتا ہے
عجیب کام ہے اے ہمدمو! یہ کارِنفس
رکا ہوا بھی یہ ہوتا دکھائی دیتا ہے
مجھے یقیں ہے یہاں کا بنا ہوا ہی نہیں
اس آئینے میں زمانہ دکھائی دیتا ہے
تمام رات ہیولے سے رقص کرتے ہیں
کسی کسی کا سراپا دکھائی دیتا ہے
رعایا جتنے بھی چاہے عذاب میں ہو مگر
جہاں پناہ کو اچھا دکھائی دیتا ہے
سنا یہی ہے ابھی ختم ہونے والا نہیں
یہاں جو روز تماشا دکھائی دیتا ہے
طارق نعیم
No comments:
Post a Comment