آدمی کا ہے فسانہ خاک سے
ہے ازل سے دوستانہ خاک سے
آپ کے چہرے پہ رونق ہے بہت
کیا کوئی نکلا خزانہ خاک سے؟
میں کسی کا بھی رہوں محتاج کیوں
پا رہا ہوں آب و دانہ خاک سے
اک قدم بھی کیا اٹھے اس کے بغیر
چل رہا ہے یہ زمانہ خاک سے
زہر بھر دے جو تمہارے خون میں
مت اگاؤ ایسا دانہ خاک سے
جینا مرنا ہے لحد کی خاک میں
میرا روشن آستانہ خاک سے
ساحر! عالم آشکارا ہو گیا
پیار تیرا والہانہ خاک سے
ساحر شیوی
No comments:
Post a Comment