رات لوگوں نے جسے دور سے دیکھا ہو گا
چاند کہتے ہیں، مگر آپ کا چہرہ ہو گا
کس کو یہ ہوش کہ انجامِ محبت سوچے
جو بھی ہو گا مِرے محبوب! وہ اچھا ہو گا
میری قسمت میں جو تھی تشنہ لبی آج بھی ہے
تیری زُلفوں کا یہ ساون کہیں برسا ہو گا
تیرا دل ہو کہ مِرا، دل تو سبھی ہیں، لیکن
فرق یہ ہے کوئی پتھر، کوئی شیشہ ہو گا
پھر بہار آئے گی مہکیں گے ہر اک سمت گُلاب
پھر وہی جوشِ جنوں پھر وہی صحرا ہو گا
ظُلمتِ شب سے نہ گھبراؤ زمانے والو
صبح آئے گی، بہرحال اُجالا ہو گا
بے نیاز آج مِرے غم سے یہ دُنیا ہے اثر
کل مِرے بعد مِرے پیار کا چرچا ہو گا
اثر بہرائچی
No comments:
Post a Comment