چل کے کہتا تھا مجھ کو چال سنبھال
میرے دشمن! زرا زوال، سنبھال
میں طبیبوں کے بس کا نئی مجھ کو
اے مِرے صاحبِ جمال سنبھال
عشق، اے عقل تیرے بس کا نہیں
جا ری جا خرد اپنے جال سنبھال
آنے والے زمانے تیرے ہیں
دلِ بے حال!، اپنا حال سنبھال
آئینے کو یہ کہہ کے چھیڑتے ہیں
دیکھتا کیا ہے؟ اپنی رال، سنبھال
اوڑھ آنچل کہ رات بیت چکی
ہوش میں آ جا اپنے بال سنبھال
لمس تیرا، شراب ہے سانول
دہک اٹھے ہیں پھر سے گال، سنبھال
سانول حیدری
No comments:
Post a Comment