کوئی صبح تو ایسی ہو
تِری آواز پر جاگوں
تِری مدھم سی سرگوشی
سماعت میں گُھلے جیسے
کسی ویران بستی پر
محبت کی بہاروں کا
مہکتا در کھلے جیسے
تِری زلفوں سے چھن چھن کر
طلوع صبح کی کرنیں
مِرے احساس تک پہنچیں
تمہارے احمریں لب
میرے دل کی پیاس تک پہنچیں
کوئی تو ایسی صبح ہو
جو تیری زلف کی ٹھنڈک کے سائے ہو
کوئی صبح تو ایسی ہو
کہ میں دیکھوں تمہیں کہ تم
مِرے کمرے میں آئے ہو
میں سب خوابوں سے لوٹ آوں
تِرے لب پر تبسم ہو
تِرے ہاتھوں میں چائے ہو
سانول حیدری
No comments:
Post a Comment