دل تو دل سارا گھر اُداسی ہے
آج تو اس قدر اداسی ہے
پتے پتے پہ ہِجر لکھا ہے
ہر شجر ہر شجر اداسی ہے
کہکشاؤں کو رشک تھا جس پر
اب تو وہ راہگزر اداسی ہے
لُوٹ کر لے گیا ہے چاند کوئی
اب فقط بام پر اداسی ہے
رقص کرتے تھے شمس و قمر جہاں
اب تو وہ بھی نگر اداسی ہے
واعظا! صبر پر بیان سُنا
لگ رہا ہے صبر اداسی ہے
اب فُغاں کی جگہ ہے سرد سی چُپ
اب کہاں چشمِ تر اداسی ہے
ساقیا! چشمِ گُل فروش زرا
اِس طرف کر، اِدھر اداسی ہے
شہر سے کر گیا کوئی ہِجرت
اب تو سارا شہر اداسی ہے
آخری جام ہے، اُٹھا سانول
ایک پیالہ زہر اداسی ہے
سانول حیدری
No comments:
Post a Comment