اس کی خوشبو مجھے ہر گاہ مِلا کرتی تھی
پھر گزرنے کی کہاں راہ ملا کرتی تھی
کیسے خدشات سے بستہ مِرا بھر جاتا تھا
اس کی چھٹی کی جب افواہ ملا کرتی تھی
خواب کی بھیڑیں چرانے کا عجب موسم تھا
ہر جزیرے پہ چراگاہ ملا کرتی تھی
تھا عقیدت کے سمندر میں عجب مد و جزر
اگلے ہر موڑ پہ درگاہ ملا کرتی تھی
نوکری ایک تھی اور عشق ادارے میں تھی
تب ہمیں وقت پہ تنخواہ ملا کرتی تھی
عاطف وحید یاسر
No comments:
Post a Comment