دل کی بربادی کا کوئی سِلسلہ پہلے سے تھا
اس چراغِ شب پہ الطافِ ہوا پہلے سے تھا
اُس کے یُوں ترکِ محبت کا سبب ہو گا کوئی
جی نہیں مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
دونوں اپنی زندگی کے جھٹپٹے میں ہیں مگر
اس طرح مِلنا مقدر میں لِکھا پہلے سے تھا
اب تو زخمِ دل نمک خوارِ توجہ ہے تِرا
نام پر جاری تِرے حرفِ دُعا پہلے سے تھا
راستہ بُھولا نہیں اب کے پرندِ خوش خبر
اور کچھ اُجڑا ہوا شہرِ سبا پہلے سے تھا
تیرے آنے سے تو بس زنجیر ہی بدلی گئی
ہم اسیروں پر جفا کا باب وَا پہلے سے تھا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment