اس کا معمول ہے ہر روز شکایت صاحب
مجھ پہ لازم ہے کہ دینی ہے وضاحت صاحب
آسمانوں کو مِرے چِھین لِیا، اس کے عِوض
دی گئی ہے مجھے چھت کی سہولت صاحب
ہائے زِنداں کی گُھٹن میں تِرا احساں مجھ پر
سانس لینے کی مجھے دے دی اجازت صاحب
دُھوپ، برسات سے پھیکے نہیں ہوں گے ہرگز
اپنے رنگوں کی میں دیتی ہوں ضمانت صاحب
جنگ جیتی ہے انا کی، سو وہ مسرُور پِھرے
میں بھی دفنانے کو جاتی ہوں محبت صاحب
میں منافق تو بہرحال نہیں ہو سکتی
جب نہ ایمان رہا، کیسی اطاعت صاحب
تم میں دم ہے تو کرو ختم تعلّق مجھ سے
کر رہی ہوں سرِ محفل میں بغاوت صاحب
کبھی نکہت، کبھی آنسُو، کبھی پتھر کر دے
وہ دباؤ ہے کہ بدلے مِری ہیت صاحب
نکہت افتخار
No comments:
Post a Comment