تصور کا اثر بڑھ کر گلے کا ہار ہو جائے
اِدھر پردہ سرک جائے اُدھر دیدار ہو جائے
اے واعظ تُو ہی کر انصاف وہ سجدہ کا کیا کہنا
کہ جو سجدہ سراپا نقشِ پائے یار ہو جائے
مجھے محفل سے اپنی اس لیے شاید نکالا ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ واقفِ اسرار ہو جائے
نگاہِ یار! میری زندگی کا خاتمہ کر دے
مکاں سے تیر نکلے اور جگر کے پار ہو جائے
محبت کے سمندر میں کوئی ڈُوبے کوئی ابھرے
کوئی اِس پار رہ جائے، کوئی اوس پار ہو جائے
دبے پاؤں چلے آتے ہیں تُربت پر مِری نازاں
انہیں ڈر ہے کہیں سویا ہوا ہُشیار ہو جائے
نازاں شولا پوری
No comments:
Post a Comment