بیٹے کے نام
میں تمہاری آنکھوں سے
وہ زمانے دیکھوں گا
جو ابھی نہیں آئے
میں تمہارے پاؤں سے
تیز تیز بھاگوں گا
ایسی شاہراؤں پر
جو ابھی نگاہوں سے
مثلِ خواب اوجھل ہیں
میں تمہارے ہاتھوں سے
وہ پہاڑ چُھو لُوں گا
جس کو سوچ کر بھی
اب سانس پُھول جاتی ہے
وہ پہاڑ، وہ رَستے
جن پہ تم کو جانا ہے
وہ نیا زمانہ ہے
اور وہ تمہارا ہے
میں اُس زمانے کو
دیکھ بھی نہ پاؤں گا
لیکن اُس زمانے کی
ہر گھڑی، ہر ایک پل کو
میری آنکھیں دیکھیں گی
اُن چمکتی آنکھوں سے
جو تمہاری آنکھیں ہیں
میں تمہاری آنکھوں میں
پیار بن کے رہتا ہوں
نُور بن کے بستا ہوں
خواب بن کے زِندہ ہوں
میرے سارے خوابوں کو
اِن جمیل آنکھوں کے
ایک گوشے میں
تم چُھپا کے رکھ لینا
اور اگر یہ خواب کبھی
پُھول بن کے مہکیں تو
اُن کی خُوشبوؤں میں تم
میرے نام کے سارے حرف
احتیاط سے رکھ دینا
اشفاق حسین
No comments:
Post a Comment