Friday, 3 November 2023

بشر اپنے نگر کا ڈھونڈتا ہوں

 بشر اپنے نگر کا ڈھونڈتا ہوں

میں سایہ اِک شجر کا ڈھونڈتا ہوں

یہاں چھائی ہوئی ہے رات کالی

نشاں کوئی سَحَر کا ڈھونڈتا ہوں

اندھیرا جو اجالے میں بدل دے

نظارہ اس قمر کا ڈھونڈتا ہوں

کہاں جمشید، دار و سکندر؟

حوالہ ان کے سر کا ڈھونڈتا ہوں

ریاضِ دہر کی رونق محبت

ثمر اس نخلِ تر کا ڈھونڈتا ہوں

خوشی کی اِک خبر اخبار میں ہوں

علاج اس دردِ سر کا ڈھونڈتا ہوں

جنوں ہے، آگہی ہے، کیا ہے ثاقب

پتہ اپنے ہی گھر کا ڈھونڈتا ہوں


عباس علی شاہ ثاقب

No comments:

Post a Comment