کسی سے کیا قرابت بڑھ گئی ہے
زمانے سے عداوت بڑھ گئی ہے
گرا ہے کوئی نظروں سے اگرچہ
کسی کی قدر و قیمت بڑھ گئی ہے
کبھی اک نام لکھا تھا ہوا میں
مِری اس سے عقیدت بڑھ گئی ہے
اسے آنکھوں میں رکھ کر میں نے سوچا
مِری سوچوں کی رفعت بڑھ گئی ہے
اسے دیکھا غموں سے دور جب بھی
مِرے دل کی مسرت بڑھ گئی ہے
چلی ایسی ہوا اس شہرِ دل میں
یہاں ہر شے کی قیمت بڑھ گئی ہے
مصیبت بانٹنے آیا تھا کوئی
مِری تب سے مصیبت بڑھ گئی ہے
بڑا ہونے کا ہے یہ مسئلہ بھی
مِری ہر اک ضرورت بڑھ گئی ہے
ہوئی ہیں منزلیں دشوار عادل
سو اب کچھ اور ہمت بڑھ گئی ہے
عادل صدیقی
شبیر صدیقی
No comments:
Post a Comment